اکیشیا میں خوش آمدید

ہمارا فلسفہ اور درپیش تہدید

جدید معاشرے میں سیکولر بنیاد پرستی اور مذہبی بنیاد پرستی کے پھیلاؤ نے پوری دنیا کی تہذیبوں کے لیے انوکھے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ تاریخ دان اور ماہرینِ عمرانیات اس بات پر متفق ہیں کہ بظاہر ایک دوسرے سے ٹکراتے نظر آنے والے یہ بنیاد پرستانہ نظریات ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان نظریات کی بنیادیں مغربی روشن خیالی کی مطلقانہ، ثنویاتی، اور ہر شے کو ہڑپ کر جانے والی منطق میں پیوست ہیں۔ اس منطق نے جدید دنیا کو نہ صرف غیر مذہبی اصطلاحات میں سوچنے کا درس دیا ہے بلکہ ’یا یہ یا وہ‘ کے انداز میں سوچنا سکھایا ہے، جس کو اس جدید محاورے میں بخوبی سمویا جا سکتا ہے کہ ”تم ہمارے ساتھ ہو نہیں تو ہمارے خلاف ہو۔“ ماحولیاتی تبدیلی کے بحران کی طرح، جو کہ پوری دنیا کی قدرتی حیات کے لیے خطرہ ہے، سیکولر بنیاد پرستی اور مذہبی بنیاد پرستی کا یہ بندھن بھی ان بھیانک خطرات میں سے ایک ہے جو اس عالمی گاؤں کی تہذیبی زندگی کو لاحق ہے۔

ہمارا فلسفہ

جدید معاشرے میں سیکولر بنیاد پرستی اور مذہبی بنیاد پرستی کے پھیلاؤ نے پوری دنیا کی تہذیبوں کے لیے انوکھے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ تاریخ دان اور ماہرینِ عمرانیات اس بات پر متفق ہیں کہ بظاہر ایک دوسرے سے ٹکراتے نظر آنے والے یہ بنیاد پرستانہ نظریات ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان نظریات کی بنیادیں مغربی روشن خیالی کی مطلقانہ، ثنویاتی، اور ہر شے کو ہڑپ کر جانے والی منطق میں پیوست ہیں۔ اس منطق نے جدید دنیا کو نہ صرف غیر مذہبی اصطلاحات میں سوچنے کا درس دیا ہے بلکہ ’یا یہ یا وہ‘ کے انداز میں سوچنا سکھایا ہے، جس کو اس جدید محاورے میں بخوبی سمویا جا سکتا ہے کہ ”تم ہمارے ساتھ ہو نہیں تو ہمارے خلاف ہو۔“ ماحولیاتی تبدیلی کے بحران کی طرح، جو کہ پوری دنیا کی قدرتی حیات کے لیے خطرہ ہے، سیکولر بنیاد پرستی اور مذہبی بنیاد پرستی کا یہ بندھن بھی ان بھیانک خطرات میں سے ایک ہے جو اس عالمی گاؤں کی تہذیبی زندگی کو لاحق ہے۔

پچھلے پچاس برس میں ہونے والی پیش رفت نے اس بات کو اظہر من الشمس کیا ہے کہ موجودہ اعلیٰ تعلیمی ادارے بنیاد پرستی کے اس ناسور کی صحیح تشخیص کرنے اور اس کا علاج کرنے میں بالکل ناکام رہے ہیں۔ اس ناکامی کی بنیادی وجہ یونیورسٹی کا وہ ہتک آمیز رویہ ہے جو اس نے روایت کے ساتھ روا رکھا ہے۔ اس صورت حال نے ایک ایسے ادارے کی ضرورت پیدا کر دی ہے جو روایت کی حکمت کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے جدیدیت کے بحران کے بارے تحقیق کرے اور اس کا علاج کرے۔

اکیشیا ایجوکیشن فاؤنڈیشن ایسا ہی ایک ادارہ بنانے کے لئے کوشش کر رہی ہے۔

پسِ منظر

جدیدیت کا بحران

۱) سیکولر بنیاد پرستانہ فکر جس نے شمال / جنوب، معاشیات / اخلاقیات، بڑھوتری / استحکام اور انسانی حقوق / ملکی سلامتی جیسی بظاہر لاینحل تقسیمات کو تخلیق کیا ہے۔

۲) اعتقادی / عقلی، انفرادی / اجتماعی اور سماجی / مذہبی امتیازات کا، جو کہ ایک آزاد اور کثیر الثقافتی / مذہبی معاشرے کی بنیاد ہیں، جدیدیت زدہ جارحانہ مذہبی بنیاد پرستی کھلم کھلا انکار کر رہی ہے۔

۳)  یہ حقیقت واضح رہے کہ بظاہر ایک دوسرے سےٹکراتے یہ بنیاد پرستانہ نظریات، مغربی روشن خیالی کی مطلقانہ، ثنویاتی اور ہر چیز کو نگل جانے والی منطق پر مبنی ہیں۔

روایت کی حکمت

۴) جدیدیت کے بحران کو صحیح طرح سے سمجھنے کیلئے مولانا رومی اور علامہ اقبال کا کام ایک عظیم سرمایے کی حیثیت رکھتا ہے، جس میں اس بحران کے خاتمے کیلئے ٹھوس اشارے بھی موجود ہیں۔

۵) اسلامی روایت کی اس حکمت کی بازگشت دیگر مختلف مذہبی اور تہذیبی پس منظر رکھنے والے مفکرین میں بھی سنائی دیتی ہے، مثلا لیانگ شمنگ (چین)، ٹیگور (ہندوستان)، گوئٹے (یورپ)، بردیاف (روس) وغیرہ۔

۶) روایت کی حکمت کی تقریباََ تین صدیوں تک تضحیک کرنے اور اسکا تمسخر اڑانے کے بعد آخر کار جدیدیت پسند سیکولر فکر کو اس کی قدر و اہمیت کا ادراک ہو رہا ہے۔

وجہ تسمیہ

وجہِ تسمیہ

اس ادارے کا نام قرآنِ مجید کی سورہ ابراہیم (۱۴) کی درج ذیل آیات سے متاثر ہو کر رکھا گیا ہے :

أَلَمۡ تَرَ كَیۡفَ ضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلࣰا كَلِمَةࣰ طَیِّبَةࣰ كَشَجَرَةࣲ طَیِّبَةٍ أَصۡلُهَا ثَابِتࣱ وَفَرۡعُهَا فِی ٱلسَّمَاۤءِ (٢٤)
تُؤۡتِیۤ أُكُلَهَا كُلَّ حِینِۭ بِإِذۡنِ رَبِّهَاۗ وَیَضۡرِبُ ٱللَّهُ ٱلۡأَمۡثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمۡ یَتَذَكَّرُونَ (٢٥)

کیا آپ نے نہیں دیکھا، اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی ہے کہ پاکیزہ بات اس پاکیزہ درخت کی مانند ہے جس کی جڑ (زمین میں) مضبوط ہے اور اس کی شاخیں آسمان میں ہیں؟ (۲۴)
وہ (درخت) اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل دے رہا ہے، اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (۲۵)

ایک پاک درخت کی جڑیں مضبوطی سے زمین میں گڑی ہوتی ہیں، اور شاخیں آسمان کو چھوتی ہیں۔ یہ حیات کُش کاربن ڈائی آکسائڈ کو زمین سے حاصل کردہ غذائیات اور آسمان سے جذب کردہ سورج کی روشنی کے امتزاج سے حیات بخش آکسیجن میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یہ پھل پیدا کرتا ہے جو کہ تمام جانداروں کیلئے خوش ذائقہ اور قوت بخش ہیں، اور ادویات بناتا ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں۔ اکیشیا ایجوکیشن فاؤنڈیشن انہی خصوصیات اور فوائد کو اپنے اندر سمونے کی کوشش کرے گی جو ان آیات میں بیان کے گئے ہیں۔ اس کی زمین (مخصوص روایت) میں مضبوطی سے گڑی جڑیں اور آسمان (مشترک آفاقی معیارات) کو چھوتی شاخیں، آسمانی عناصر (وحی) کو زمینی عناصر (سائنسی علم) کے ساتھ ملا کر حیات کُش کاربن ڈائی آکسائڈ (بنیاد پرستی کی ثنویاتی منطق) کو حیات بخش آکسیجن (مصحف کی ثالثاتی منطق) میں تبدیل کریں گی، اور ایسے پھل (علم) پیدا کریں گی جو تمام جانداروں کے لئے فائدہ مند ہوں گے۔

بنیادی اقدار

علمی دیانت داری

اپنی روایت سے وفا داری

تخلیقی دریافت

آزادانہ تحقیق

روایات کے مابین سماجی تعمیر

شراکت دار

اہداف و مقاصد

خواب

حیات کُش تقسیمات کو حیات بخش تعلقات میں تبدیل کرنا

تعبیر

مختلف شعبہ جات، ثقافتوں، مذاہب، اور ادوار سے تعلّق رکھنے والے مفکرین اور علمی وسائل کو ایک دوسرے کے قریب لانا تاکہ درج ذیل تقسیمات کے درمیان خلیج کو پاٹا جا سکے:

  • مذہبی علوم اور سائنسی علوم،
  • فطری علوم اور سماجی علوم، اور
  • علمی تحقیق اور عملی اطلاق

اکیشیا کا تربیتِ افرادی قوت پروگرام جلیبیب انسٹیٹیوٹ کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔

مقاصد

  • ایسے داخلی رویے کا بیج بونا جو کسی اجنبی ”غیر“ کو خود کے لئے خطرے کی بجائے امید اور اصلاح کے وسیلے کے طور پر دیکھے
  • مختلف روایات میں ایسے افکار اور وسائل کی نشاندہی کرنا اور ان کی اشاعت و تبلیغ کرنا جو کہ مخالفانہ نظریات کے وجود کو تسلیم کرنے، آپس کے اختلافات کو سمجھنے، اور ببانگِ دہل تمام انسانوں کی مخلوقِ خدا ہونے کی حیثیت کے اثبات کی سوچ کو فروغ دیں
  • مختلف سوچ و عمل کے حامل طلباء اور گروہوں کو ایک باہم مشترک پلیٹ فارم مہیا کرنا جہاں وہ ایک دوسرے کی روایات، نظریات، افراد اور معاشروں پر تحقیق کر سکیں
  • انسانی اور سماجی علوم مثلاً ادب، لغات / لسانیات، تاریخ، مذہبی علوم، عمرانیات، سیاسیات، معاشیات وغیرہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے طلباء کو رہنمائی اور مالی وظائف مہیا کرنا
  • طلباء کو رغبت دلانا کہ وہ معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے اس کے متحرک جز اور ذمہ دار شہری بنیں

افرادِ کار

ڈاکٹر باسط بلال کوشل

ڈائرکٹر، سی۔ای۔او

ڈاکٹر باسط بلال کوشل لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کے سکول آف ہیومینٹیز اینڈ سوشل سائنسز میں پروفیسر ہیں۔ آپ نے ۲۰۰۶ء میں کنکورڈیا کالج (مورہیڈ، منیسوٹا) میں چار سال تک پڑھانے کے بعد لمز میں شمولیت اختیار کی۔ آپ نے اپنی پہلی پی۔ایچ۔ڈی ۲۰۰۳ء میں ڈریو یونیورسٹی سے، مذہب اور معاشرے (بالخصوص سماجیاتِ مذہب) میں حاصل کی، اور دوسری پی۔ایچ۔ڈی ۲۰۱۱ء میں یونیورسٹی آف ورجنییا سے مذہبی علوم (بالخصوص الٰہیات، اخلاقیات، تہذیب، اور مصحفی استدلال) میں حاصل کی۔ ان کی تحقیق کے شعبوں میں فلسفہِ سائنس، سماجیاتِ ثقافت، فلسفہِ مذہب، اور اسلام اور مغرب کا عصری مقابلہ شامل ہیں۔ آپ خاص طور پر علامہ محمد اقبال، چارلز پرس اور میکس ویبر کی بصیرت کو یکجا کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ آپ کی اشاعات میں اقبال پر دو مشترکہ تدوین شدہ جلدیں شامل ہیں (ایک اقبال اکیڈمی، پاکستان اور دوسری ایڈنبرا یونیورسٹی پریس نے شائع کی ہے)۔ ان کے علاوہ ویبر اور پرس پر آپ کی تین کتب شائع ہو چکی ہیں اور چوتھی آنے والی تصنیف ہے۔

محمد احمد بلال

ڈائرکٹر، سی۔ایف۔او

احمد بلال اکیشیا ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ڈائرکٹرز کے اراکین میں سے ایک ہیں۔ آپ ٹریڈ ایکسپڈائٹرز پاکستان (پرائیویٹ) لمیٹڈ، جو کہ ایک سامانِ رسد کی نقل و حرکت کو سنبھالنے والی کمپنی ہے، کے سی۔ای۔او کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ آپ کی دلچسپی کے اہم شعبوں میں ایک بین المحکمہ جاتی  قیادت کی آبیاری شامل ہے۔

ڈاکٹر اسماء گل

ڈائرکٹر

ڈاکٹر جنید اختر

ڈائرکٹر

ڈاکٹر زرناب گل

ڈائرکٹر

ڈاکٹر عبید اللہ خان

ڈائرکٹر

عبداللہ امجد

کمپنی سیکرٹری

ڈاکٹر امیمہ امجد

ڈائرکٹر

تربیتِ قوتِ افرادی

جلیبیب انسٹیٹیوٹ

جلیبیب انسٹیٹیوٹ (منصوبہ اکیشیا ایجوکیشن فاؤنڈیشن) مطلوبہ فکری مہارتوں کے حامل دو قسم کے طلباء کی پشتی بانی کرتا ہے تاکہ اپنے اہداف و مقاصد کوعملی جامہ پہنا سکے۔ ایک قسم ان طلباء کی ہے جو کسی یونیورسٹی میں انڈرگریجویٹ یا گریجویٹ پروگرام سے منسلک ہیں۔ دوسری قسم ان طلباء کی ہے جو کسی دینی مدرسہ سے درس نظامی میں فارغ التحصیل ہیں۔ ان دونوں گروہوں کی مختلف مگر باہم تکمیلی ضروریات ہیں۔ پہلا گروہ سیکولر علوم کے میدان میں ماہر ہے مگر مذہبی علوم کی بالکل ابتدائی واقفیت رکھتا ہے۔ دوسرا گروہ مذہبی علوم میں انتہائی مہارت رکھتا ہے مگر جدید سائنسز اور سوشل سائنسز سے بالکل نابلد ہے۔ جلیبیب انسٹیٹیوٹ چاہتا ہے کہ ان دونوں گروہوں کی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے ایک حتمی مقصد کے ساتھ انہیں ایک جگہ، ایک چھت کے نیچے اکھٹا کیا جائے، جہاں وہ انسانی معاشرے کو لاحق بڑے مسائل پر بحث کر سکیں اور ان مسائل کو حل کرنے کے لئے مؤثر لائحہ عمل بنا سکیں۔

ورکشاپیں

تعارفی سیشن
مذہب اور سائنس: فکری تصادم سے آزادانہ تحقیق کی جانب

یہ دو سے تین گھنٹے کا تعارفی سیشن ہے، جس میں سامعین کو اس موضوع اور ورکشاپ کے مزاج سے رو شناس کروایا جاتا ہے۔ بالعموم مدرسہ کو مذہبی بنیاد پرستی کی نشونما کرنے والے ادارے کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ جب کہ یونیورسٹی کو سیکولرازم اور الحاد کی افزائش کرنے والے ادارے کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔

یہ سیشن ان دونوں رجحانات کو ایک ہی سکے کے دو رخوں کے طور پر دیکھتا ہے۔ یہ چبھتا ہوا نکتہ قائم شدہ تعصبات اور سوچنے کے مروجہ انداز کو چیلنج کرنے پر اکساتا ہے اور فریقین کے درمیان خود تنقیدی اور باہمی مکالمے کے امکانات کی راہ ہموار کرتا ہے۔ شرکاء کو اس موضوع کے تفصیلی مطالعہ کی دعوت دی جاتی ہے۔

درجہ اول
مذہب اور سائنس: تصادم کی وجوہات اور مکالمے کی شرائط

تین سے پانچ دن کی اس ورکشاپ میں طلباء ممتاز مفکرین مثلاً امام غزالی، مولانا عبدالماجد دریا آبادی، موسیٰ ابن میمون، ٹالسٹائی، جان  ڈووی اور رفیع الدین کی تحریروں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ تحریریں طلباء کو علمی تاریخ کے سدا بہار مسائل اور ان کی  موجودہ شکل کے متعلق خیالات اور ان کی اصطلاحات سے روشناس کرتی ہیں،  بالخصوص اس زاویے سے کہ یہ مسائل مذہب، سائنس، اور فلسفہ کے باہمی تعلق سے کس طرح منسلک ہیں۔ اس تعلیمی تجربے کے دوران کشادہ ذہنیت اور مختلف مستند نقطہ ہائے نظر کا احترام بہت اہم ہے۔

اس طرح کی مجالس میں ورکشاپ کے اراکین کو ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے کہ وہ نئے خیالات کے لیے کشادہ ذہنی کے معیار کے ساتھ ساتھ اپنے اور دوسروں کے موقف کے لیے دلائل اور جواز پیش کرنے اور ان کا جائزہ لینے کی صلاحیت پیدا کریں۔ یہ دونوں اہداف آپس میں جڑے ہوئے ہیں، کیونکہ ورکشاپ کے اراکین کو کچھ ایسی بنیادوں کی ضرورت ہوتی ہے جس کی بنیاد پر وہ نئے تصورات کے بارے میں رائے قائم کریں جن پر وہ غور کر رہے ہیں۔

درجہ دوم
سائنسی فلسفہ: بنیاد پرستانہ منطق سے تعلقانہ منطق کی جانب

وہ طلباء جو درجہ اول کی ورکشاپ میں سنجیدگی اور لگن کا اظہار کریں انہی کو درجہ دوم کی ورکشاپ میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔ یہ ورکشاپ جان ڈووی کی کتاب "فلسفہ کی نئی تشکیل" کے عمیق مطالعہ سے شروع کی جاتی ہے۔ بعد ازاں امریکی فلفسے کی شاخ بنام پریگمیٹزم کے بانی چارلز سینڈرز  پرس کے ـ پانچ مقالات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس مطالعہ سے طلباء تعلقانہ منطق کا گہرا فہم حاصل کرتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ یہ منطق کس طرح حیات کُش تفرقات کو حیات بخش تعلقات میں تبدیل کرتی ہے- لہٰذا انہیں بین الشعبہ جاتی اندازِ فکر کی اہمیت کا ادراک ہوتا ہے۔

درجہ سوم
تشکیلِ نو کی جانب: وحدت اور کثرت کی تعلق داری کی مشق

یہ مرحلہ علامہ محمد اقبالؒ کی شاہکار کتاب "تشکیل جدید فکریات اسلام" کے مطالعہ کے لئے مختص ہے۔ اس کے ساتھ  جان ڈووی کی "فلسفہ کی نئی تشکیل" کے کچھ حصّے اور چارلز پرس کے کچھ مقالات بھی پڑھائے جاتے ہیں۔

وظائف

وہ طلباء جنہوں نے پہلے دو درجوں میں امتیازی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ان کو سماجی اور فطری علوم میں ایم فل اور پی ایچ ڈی میں داخلے کے لئے اسکالر شپ دی جاتی ہے۔ اس مرحلے کے دوران طلباء کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اپنے اس مدرسے یا کالج کے ساتھ تعلّق استوار رکھیں جس سے وہ فارغ التحصیل ہیں۔

رابطہ کیجیے

شکریہ، آپ کا پیغام بھیج دیا گیا ہے۔
ہم معذرت خواہ ہیں کہ آپ کا پیغام بھیجا نہیں جا سکا۔